ایساحادثہ کسی کے ساتھ نہ ہو

“محتاط رہیں”
ایساحادثہ کسی کے ساتھ نہ ہو

جمعرات کے دن میری وائف کو معدے میں ذرا سی گڑبڑ محسوس ہوئی۔ ہم آپس گپ شپ کرتے ایک نارمل چیک اپ کے لئے بحریہ انٹر نیشنل ہسپتال چلے گئے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے چیک کیا اور کہا آپ کو ایمرجنسی وارڈلے جانا ہے۔ وائف بظاہر بالکل نارمل تھی ہم ذرا سا حیران ہوئے لیکن ان کی ہدایت کے مطابق ایمرجنسی میں چلے گئے۔

ایمرجنسی وارڈ میں ڈرپ لگا دی گئی۔ سہ پہر کے تین بجے تھے۔ جیسے جیسے ڈرپ چلنے لگی وائف کا بی پی کچھ کم ہونے لگا۔ انہوں نے ایک اور ڈرپ لگا دی۔ بی پی اور کم ہوا۔ اور بے چینی کے آثار نظر آنے لگے۔ یہ دیکھ کر ان کم سن ڈاکٹروں نے آپس میں سرگوشی کی اور دوسرے بازو پر ایک اور ڈرپ بھی لگا دی۔ یعنی ایک وقت میں دو ڈرپس۔ مگر بی پی اور دل کی دھڑکن اور بھی کم ہونے لگی۔ مجھے انہوں نے اکیس بائیس ٹیسٹ لکھ کردیئے کہ یہ فوری کروائیں۔ وائف کی سانس اس دوران اکھڑ نا شروع ہو گی۔ بھاگا بھاگا لیب میں ٹیسٹ دے کر آیا۔ جب واپس آیا تو وہاں کا منظر حیران کن تھا۔ وہاں ہسپتال کے سات پروفیسر ڈاکٹر ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ کوئی کچھ کہہ رہا تھا کوئی کچھ۔ وہ بالکل گھبراہٹ کا شکار تھے۔ مجھے ان سب کی فی کس تین تین ہزار فیس جمع کروانے کا کہا گیا۔ وائف کا بی پی اور دل کی دھڑکن خطرے کے نشان سے آگے چلی گئی۔ میں نے بھاگ کر فیس جمع کرائی۔ جب واپس آیا تو میڈیکل کنسلٹنٹ ڈاکٹر نرسز کو ہدایات دے رہے تھے کہ ڈرپ کی دو لائینز کے علاوہ دونوں پاؤں پر بھی دو اور ڈرپس لگا دیں۔ اور مجھے کہا گیا کہ ان کو انتہائی نگہداشت وارڈ ( کرٹیکل کیئر وارڈ) میں شفٹ کر رہے ہیں آپ ان کاہسپتال میں داخلہ بنوا کر لائیں۔ اس دوران وائف کی سانس رکنا شروع ہو چکی تھی ۔ میں تیزی سے بلنگ کاوئنر پر گیا اس نے کہا داخلے کا ڈیڑھ لاکھ اور آکسیجن کا بارہ ہزار جمع کروا دیں۔ اور وینٹیلیٹر کی فیس اس کے علاوہ ہے۔ میں پچاس ساٹھ ہزار کے ٹیسٹ پہلے ہی کروا چکا تھا۔ اپنے اے ٹی ایم سے پیسے ٹرانسفر کر رہا تھا مگر وہ ہو نہیں رہے تھے۔ جیسے تیشے ایک لاکھ انکو ٹرانسفر کیا۔ بھاگا بھاگا آئی سی یو پہنچا تو انہوں نے کہا آپ کے مریض کی حالت تشویشناک ہو گئی ہے۔ اس کو وینٹیلٹر پر شفٹ کرنا ہوگا۔ آپ فیس جمع کروا آئیں۔ اس دوڑ بھاگ میں میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی تھی۔ میں اپنے کسی بھی عزیز سے رابطہ کرکے گھر اطلاع دینا چاہتا تھا۔ ہمیں وہاں سات گھنٹے ہو چکے تھے۔ داخلہ فیس جمع کروا کر جب انتہائی نگہداشت وارڈ میں دوبارہ گیا وہ وینٹیلٹر پر شفٹ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ مریض نیم بے ہوش اور نیلا ہو رہا تھا۔ اور سینئر ڈاکٹر نے مجھے کہا
Dear don’t keep high hopes, ابھی میں اس سے وجہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اس نے کہا It happens sometimes اور فورا پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بے پرواہی سے دوسری طرف مڑ گیا۔
میں ایاک نعبدو وایاک نستعین پڑھتے ہوئے پاگلوں کی طرح پھر نیچے بھاگا کہ کسی سے رابطہ کر سکوں۔
اس دوران ایک معجزہ ہوا۔ میں ریسیپشن پر موبائل چارجر کا پوچھ رہا تھا تو سامنے ایک شخص مجھے ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ میری وائف کا بھائی سرجن ڈاکٹر تھا۔ وہ آغا خان ہسپتال کراچی کا ڈاکٹر ہے مصروفیات کیوجہ سے کم ہی لاہور آتا ہے۔مجھے پہلے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس کے ساتھ میرا ایک یہاں کا بہت ہی جانثار دوست بھی تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ دونوں یہاں کیسے اگئے ہیں۔ خیر میں جب جلدی سے اس کو لے کر آئی سی یو گیا تو اس نے وہاں موجود سات آٹھ ڈاکٹروں سے ایک سوال کیا کہ یہ مریض پچھلے سات گھنٹے سے آپ کے پاس ہے۔ آپ سب نے اسکے مرض کی تشخیص کی؟ انہوں نے کہا ابھی ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ پھر جب وجہ نہیں پتا تو اندھا دھند مریض کو اوور فلوءڈ یعنی بے تحاشا بوتلیں کیوں چڑھا رہے ہیں؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نےکو سرزنش کی تو وہی ڈاکٹرز جو میری بات ہی نہیں سن رہے تھے وہ اسے کہنے لگے سر آپ مشورہ دیں ہمیں اب کیا کرنا چاہئے۔ اس نے مجھے کہا مریض کو سرکاری ہسپتال میں شفٹ کرنا ہوگا۔ آپ بل کینسل کروا کر آئیں۔ پہلے تو انہوں نے کہا یہ لاکھ واپس نہیں ہو سکتا سخت بحث کے بعد انہوں نے کچھ پیسے واپس کئے۔ ہم نے آکسیجن والی ایمبولینس میں نیم بے ہوش مریض کو ڈالا اور جناح اسپتال چلے گئے۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ وہاں پہلی ہی تشخیص یہ تھی کہ زیادہ بوتلیں لگانے سے پھیپھڑوں میں پانی چلا گیا ہے۔ اور مریض Multiple Organ Failure کی بارڈر لائن پر ہے۔ خیر وہاں کی کہانی الگ ہے۔ اللہ نے کرم کیا اور الحمداللہ جان بچ گئی ہے۔
سب سے یہی کہنا ہے ان بڑے بڑے اسپتالوں میں جا کر خود کو پوری طرح محفوظ نہ سمجھیں بلکہ اپنی پوری تسلی کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *